آج سے ٹھیک چالیس برس پہلے کی بات ہے، گرمیوں کا موسم اور اگست کا مہینہ تھا اور گرمی یہ نہیں بلکہ بلا کی گرمی تھی اور ہم جس جگہ کام کرتے ہیں وہاں کا جو Cooling System تھا وہ اچانک چلتے چلتے جواب دے گیا اور خراب ہو گیا۔ اس وقت ہم ایک پروگرام کی Editing کر رہے تھے اور سسٹم میں خرابی کے باعث ہمارا وہاں بیٹھنا مشکل ہو گیا اور ہم نے سوچا کہ جسمانی تکلیف ان ذہنی تکالیف سے شدید تر نہیں جو انسانی زندگی میںمنفیانہ سوچ اور منفیانہ پیش قدمی اور ایسے منفی رویوںسے پیدا ہوتی ہے جسے آپ Negative Thoughts کہتے ہیں۔ اس میں سب سے بڑی Negative Thoughts خوف ہے، دوسری نفرت، تیسری کدورت، چوتھی تشدد اور پانچویں جو بھی کسی سے کم درجے یا طاقت کی نہیں وہ غصہ ہوتا ہے۔ انسان میلادٍ آدمؑ سے لے کر اب تک اس کوشش میںمصروف رہا ہے کہ وہ ان منفی خیالات اور منفی پیش قدمی سے نجات حاصل کرے۔ انسان نے اس سلسلے اور ضمن میں بڑے پاپڑ بیلے ہیں اور بڑی ماریںکھائی ہیں لیکن یہ عوارض اس کے ساتھ ساتھ چلتے رہے ہیں اور اس نے انسانی زندگی کو بڑی بُری طرح سے کھدیڑ کے رکھ دیا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا پرانے زمانے میںلوگ کچھ دم درود، کچھ وظائف اور کچھ جھاڑ پھونک سے ڈیروں پر جا کے کچھ فقیروں، سادھوؤں اور سَنتوں کی خدمت میںحاضر ہو کر ان Negative Thoughts کو ملیا میٹ کرنے کی کوشش کرتے تھے لیکن وہ اس میںکامیاب نہیںہو پاتے تھے۔ اس کے باوجود انسان کی کوششیں جاری رہیں اور شاید مستقبل میں بھی جاری رہیں گی۔ پھر مجھے یاد ہے کہ ڈیرے پر جہاں ہم اپنے باباجی کے پاس جایا کرتے تھے، رات کے وقت جب باباجی اپنا درس دیا کرتے تھے (جو تقریباً اڑھائی بجے شروع ہوتا تھا) تو اس وقت وہ ہم سب کو گاؤ زبان کا قہوہ پلایا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ گاؤ زبان کے قہوے میں یہ تاثیر ہے کہ وہ انسان کے اندر سے منفی خیالات اور رویوں کو چوس لیتا ہے اور آدمی میںتقریباً ویسی ہی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے جیسا کہ وہ اپنی پیدائش کے وقت تھا۔ ہم باباجی سے قہوہ تو پیتے رہے لیکن اس کا ہم پر ایسا اثر نہیں ہوا جیسا کہ ہونا چاہئے تھا۔ آپ نے حکیموںسے یہ سنا ہوگا کہ اگر دماغ کو بہت گرمی ہو گئی ہے تو “تخم بلنگو“ جسے آپ “تخم ملنگاں“ کہتے ہیں اس کا استعمال کیا جائے۔ اس دور میںگرمی دانے کا بھی بہت استعمال ہوتا تھا۔ یہ ساری دوائیاں جسمانی عارضوں کے ساتھ نہیںلڑتی تھیں بلکہ یہ روحانی، ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کا مقابلہ کرتی تھیں۔ کہیںتو یہ خوش قسمتی سے کامیاب ہو جاتی تھیں اور کہیںنہیںہوتی تھیں۔ ان ساری دوائیوں میں مجھے ایک ایسی دوا یاد ہےجو واقعی بڑی مفید ہے اور اس کے نہایت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ ذہنی بالیدگی میںاہم کردار ادا کرتی ہے، اسطخدوس ہے۔ ہمیں ہفتے میں ایک روز ایک چمچ بھر اسطخدوس اور اس میںسات سیاہ مرچیں ڈال کر اس کا ابلا ہوا پانی چھان کے دیا جاتا تھا اور حکماء اور صوفیاء کہتے ہیں کہ اس کے پینے سے دماغ پر اس کا بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔۔۔۔ اس کو “جھاڑوبہ دماغ“ بھی کہتے ہیں کیونکہ کہا جاتا ہے کہ یہ دماغ کے سارے جالے جھاڑو کی طرح سمیٹ کر ذہن میںصفائی کرکے جٍلا بخشتا ہے۔ Herbal Treatment کا زمانہ بھی گزرا۔ پھر نفسیاتی علاج دان آئے ۔ وہ بھی ذہن کے اندر پراگندگی کو دور کرنے کے لئے اپنے اپنے درماںلوگوں کے سامنے پیش کرتے رہے۔ آپ کو مجھ سے بہتر علم ہوگا کہ فرائیڈ اس ضمن میں Psycho Analysis لے کر آیا۔ ایڈلر کچھ اور کہہ کے لوگوں کے ذہن سے وہ منفیانہ پیش قدمی کو دور کرتا ہے جو انسانی زندگی پر اپنا پنجہ جما کر بیٹھی ہوئی ہوتی ہے اور کسی صورت بھی انسانی ذہن کو، انسانی روح کو نہیںچھوڑتی۔ پھر سائیکو ڈرامہ آیا جس میںلوگ مل جل کے ایک ڈرامہ کرتے تھے جس میں وہ اپنے دکھ درد کا اظہار کرتے تھے اور انسان بیچارہ اس تناظر میں بس “ترلے“ ہی کرتا رہا، تڑپتا ہی رہا لیکن اس کے ذہن سے وہ باتیں دور نہ ہو سکیں جسے وہ دور کرنا چاہتا تھا۔ منفی خیالات بھی بڑے عجیب و غریب ہوتے ہیں اور وہ بہت عجیب و غریب طریقے اور انداز سے حملہ آور ہوتے ہیں اور جو لوگ شدت سے اس کی لپیٹ میںآجاتے ہیں وہ بیچارے یہ بھی کہتے ہیں کہ بزرگ اور پاکیزہ ہستیوں کے بارے میںبہت بہت بُرے خیالات ذہن میںآتے ہیں۔ باوصف اس کے ہمارے روحانی پیشوا اور ہمارے ذہنی مبلَّغ اس امر کا یقین دلاتے ہیں کہ یہ خیالات اختیاری نہیں ہوتے اس لئے اس حوالے سے زیادہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یہ انسانی زندگی پر حملہ آور ہوتے ہی رہتے ہیں۔
جب ہم Editing پر کام کر رہے تھے اور گرمی اپنی جوبن پر تھی تو وہ بڑے جہازی سائز کے امریکی کولنگ سسٹم سے ٹھنڈا رہنے والا بڑا ہال اور اس سے منسلک تیرہ کمرے گرمی میں ڈوب گئے اور ہمیں کام جاری رکھنا مشکل ہو گیا۔ وہاں ہم ریکارڈنگ کرتے تھے اور ریکارڈنگ کو پھر آگے وائس آف امریکہ واشنگٹن ڈی سی بھیجتے تھے جہاںامریکہ کی خوبیاں بیان کی جاتی تھیں کہ یہ بہت اچھا ملک ہے۔ یہ لوگوں کے ساتھ بہت محبت اور بھلائی کا سلوک کرتا ہے اور پسماندہ اور گرے پڑے لوگوں پر خاص توجہ دیتا ہے اور ہم امریکہ کے اس سحر میں آئے ہوئے تھے اور تب بھی آئے ہوئے تھے اور اب بھی بہت حد تک آئے ہوئے ہیں لیکن اس گرمی میں کام کرنا ہمارے لئے مشکل تھا اور مشینیں بھی جواب دے رہی تھیں۔ مستری یعنی مقامی ماہرین کو بلا کر پوچھا گیا کہ اس سسٹم کو کیا مسئلہ ہو گیا ہے۔ وہ ماہرین اس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے تھے اور پورے سات دن تک عملی طور پر وہ دفتر اور وہ کارخانہ بالکل ویسے ہی بند رہا جیسا کہ عام طور پر چھٹی کے روز بند ہوتا ہے۔ ہم وہاںجاتے ضرور تھے لیکن کام نہیں کر پاتے تھے۔ آخر تنگ آکر گیارہویںدن ہم نے اسلام آباد سے Experts منگوائے۔ ان میںایک امریکی ماہر تھا اور اس کے ساتھ ایک لبنانی ایکسپرٹ تھا۔ ان دونوں نے شروع سے آخر تک اس پلانٹ کو چیک کرنا شروع کیا کہ آخر اس میں ایسی کون سی خرابی پیدا ہو گئی ہے کہ یہ کولنگ سے عاجز آ گیا ہے اور عاری ہو گیا ہے۔ وہ دونوںلگے رہے اور بڑی دیر تک سوچتے رہے لیکن تین دن کی مسلسل شب و روز کی محنت کے بعد ان کی سمجھ اور گرفت میں کچھ نہ آ سکا۔ آخر ایک روز اللہ نے ہم پر اور ہماری جانوں پر مہربانی کرنی تھی اور اس لبنانی نے خوشی سے ایک زور کا نعرہ بلند کیا اور اس نے چلا کر کہا کہ میں نے خرابی پکڑ لی ہے۔ اس پلانٹ میں ایک نہایت ہی پیچیدہ جگہ پر جہاں بڑا ہی حساس آلہ (تھرمو سٹیٹ) لگا ہوتا ہے جو سسٹم کے چلنے اور بند ہونے کو کنٹرول کرتا ہے، اس کے اندر ایک حساس مقام پر چھپکلی کا ایک بچہ پھنس کر کٹ چکا تھا اور اس کی نرم و نازک ہڈیاں وہ ساری اس مشین میںپیوست ہو چکی تھیں اور اس چھپکلی کے بچے نے اس سارے پلانٹ کو روک رکھا تھا تو اب مجھے یاد آتا ہے کہ جس طرحایک معمولی سے چھپکلی اتنے بڑے پلانٹ کو یوں روک لیتی ہے کہ انسان کا بس ہی نہیں چلتا اور اس طرح نفرت، کدورت اور منفی سوچ کی چھپکلی انسانی زندگی میں پھنس کرکس طرح سے انسان کی ساری زندگی ویسے ہی روک لے گی جیسے کہ اس معمولی چھپکلی نے اس پلانٹ کو جام کر دیا تھا۔ آدمی کوشش کرتا رہتا ہے اور بڑا نیک نیت ہوتا ہے، بڑا بھلا اور اچھا ہوتا ہے لیکن ایسے خیالات سے نکل نہیں سکتا۔ تشدد، ایک نفرت، ایک غصہ، ایک خوف اگر انسان کی زندگی میںکسی طرح سے اس چھپکلی کی طرح پھنس جائے تو ستر اسی سال اور اس سے لمبی عمر بھی اس کا ساتھ نہیں دے سکے گی اور ان عوارض میںمبتلا شخص اس مرضکا شکار ہو کر اس دنیا سے چلا جائے گا۔ مجھے ہمیشہ اس بات کا خیال رہا، رہتا ہے اور اب بھی ہے اور بہت سے لوگ، بہت سے بچے اب زیادہ ہی ہو گئے ہیں جو اس بیماری کو ڈیپـریشن کا نام دیتے ہیں چونکہ یہ انگریزی زبان کی Term میڈیکل کی دنیا سے ہمارے اوپر آئی ہے اور یہ لفظ یا بیماری جسے ڈیپریشن کہتے ہیں اور اس کے بارے میں بہت کچھ کہا جاتا ہے اس کے وجود میںآنے اور پیدا ہونے کی ساری وجہ یہ ہے کہ انسان کی چلتی ہوئی زندگی میں ایک چھپکلی پھنس جاتی ہے اور یہ پھنستی بھی ایک ایسے انتہائی حساس مقام پر ہے جو آپ کی روحکے تھرمو سٹیٹ کو کنٹرول کرتا ہے اور وہ چھپکلی وہی منفی پیش قدمی اور Negative Approach ہوتی ہے جس کو میں بار بار آپ کی خدمت میں یہ کہہ کر پیش کرتا ہوں کہ وہ یا تو تشدد کی صورت میںآتی ہے یا پھر غصہ، خوف یا نفرت کی شکل میں آتی ہے۔
آپ کبھی بھی اپنی زندگی کا جائزہ لے لیں یہ عارضہ جس شخص میںکم ہوگا یا جس کسی نے اس کے اوپر کنٹرول کر رکھا ہوگا وہ خوش نصیب ہے اور وہ کم بیمار ہے۔ کچھ نہ کچھ خرابی تو آدمی میں رہتی ہی ہے لیکن اللہ جسمانی عارضے کے مقابلے میں روحانی اور نفسیاتی عارضے سے بچائے۔
ہم ایک بار تھر پارکر کے ریگستان میںتھے اور جیپ پر محوٍ سفر تھے۔ ریت میںجیپ آہستہ آہستہ حرکت کر رہی تھی۔ ریت میںگاڑی چلانا خاصا محال ہوتا ہے۔ اسے وہاںکے ماہر ڈرائیور ہی چلا سکتے ہیں۔ آدھا Desert عبور کر کے ہم اسلام کوٹ پہنچے۔ وہاں ہمارے میزبان مکھی نہال چند تھے جو ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ شام کے وقت جب میںاور ممتاز مفتی سیر کرنے کے لئے نکلے تو ہمیں وہاں پرعجیب و غریب طرز کی دو چیزیںنظر آئیں۔ ایک تو یہ کہ کھلے ریگستان میںجگہ جگہ ٹینٹ لگے ہوئے تھے اور ان میںبڑے ہی خوبصورت پیارے پیارے بچوں والے خاندان آباد تھے اور ان میںنہایت کڑیل نوجوان مرد تھے اور عورتیںچونکہ لمبا گھونگھٹ نکال کے پردہ کرتی تھیں اس لئے ان کے بارے میں ہم کچھ وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ کس شکل و صورت کی تھیں۔ دوسرا ان ٹینٹوںکے آگے یا اس کاروان کے آگے جو خیمہ زن تھا ایک چھوٹا سا کچا گھر تھا جس کے باہر ایک پرانی پیٹی پڑی ہوئی تھی ایسی پیٹی جیسی آموں والی ہوتی ہے اور اس پر پرانی مسواک سے لال رنگ میںجامعۂ اشرفیہ لکھا ہوا تھا۔ میںنے ممتاز مفتی سے کہا کہ اس مقام پر اتنی دور جامعۂ اشرفیہ کہاںسے آ گیا۔ ہم نے اس کچے مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے ایک صاحب نکلے۔ ان کی پینتالیس پچاس برس عمر ہوگی۔ ہم نے ان سے کہا! صاحب آپ کے گھر کا نام جامعۂ اشرفیہ کیوں ہے؟ انہوںنے کہا کہ جی میںنے کچھ وقت مولانا اشرف علی (رح) کی خدمت میں تھانہ بھون میںگزارا تھا۔ میں ان سےمتأثر ہوں اور انہی کی یاد میں میںنے اپنے گھر کو یہ نام دے دیا۔ ہماری ان کے ساتھ بڑی باتیں ہوتی رہیں اور آخر میںممتاز مفتی نے پوچھا کہ دل میںطرحطرح کے خیالات آتے ہیں جن میںمنفی قسم کے خیالات بہت زیادہ ہیں اور ان خیالات میں بری بری باتیں بھی ہیں۔ کچھ ایسی بری باتیں جو میرے دل کو بھی بری لگتی ہیں اور کچھ ایسی باتیںجو لوگوںکو ناگوار گزریں، تو مولوی صاحب آپ یہ بتائیں کہ کیا آپ نے اس کے بارے میں کچھ سوچا۔ دوائیاں تو بنی ہیں، حکیموں نے اس کے توڑ کے لئے جوشاندے بھی بنائے ہیں اور لوگ دم درود بھی کرتے ہیں لیکن یہ خیالات ذہن اور دل سے نکل نہیں پاتے تو مولوی صاحب نے کہا جی میںنے تو یہ سوچا ہے کہ اگر آپ تشدد پر مائل ہوں، اگر آپ کی طبیعیت میںغصہ ہو اور آپ خوفزدہ رہتے ہوں اور آپ کو کسی شخص کے ساتھ نفرت ہو تو آپ ہمیشہ اپنی سٹین گن اپنے ساتھ رکھیں اور جو مدِّ مقابل ہے، جس سے آپ کو نفرت ہے اس کو کمرے میںداخل ہوتے ہی یا ملتے ہی (انہوںنے باقاعدہ سٹین گن پکڑ کر پوزیشن بنا کر دکھائی) اس پر فائر کر دیں پھر آپ کی جان بچ گئی اور اس کے بارے میں پروا نہ کریں۔ اب میں بھی اور ممتاز مفتی بھی حیران کہ بھئی یہ اچھا آدمی ہے یہ سٹین گن سے بندوںکو ہی تباہ کئے جاتا ہے۔ اس نے کہا کہ جناب جب تک آپ اپنی سٹین گن ہر وقت تیار نہیں رکھیںگے اس وقت تک اس عمل سے آپ گزر نہیں سکیں گے اور یاد رکھئے سٹین گن میں ہر طرحکی گولی پڑے گی چوکور، لمبی، چھوٹی اور بڑی اور وہ چلے گی۔ ہم نے کہا مولوی صاحب ہم نے تو ایسی سٹین گن نہیں دیکھی جس میں گولیوں کی شکل و صورت اور حجم بھی مختلف ہو۔ کہنے لگے کہ آپ کو بس یہ گن ہر وقت تیار رکھنی ہے اور اپنے بائیںکندھے کے ساتھ لٹکا کر چلنا ہے اور اس سے غافل نہیںہونا۔ مفتی بڑا متجسّس آدمی تھا۔ انہوں نے کہا کہ جی یہ گن کہاں سے ملتی ہے، تو مولوی صاحب نے کہا کہ یہ آپ کو خود ہی تیار کرنا پڑے گی۔ مفتی صاحب نے کہا باڑے سے ملے گی؟ انہوںنے کہا کہ نہیں۔ پوچھا سندھ سے، تو بھی جواب نفی میں ملا۔
ہم نے کہا کہ صاحب یہ تو ایک مشکل کام ہمیں بتا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے تیار کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ سارا دارومدار گولیوں پر رکھیں جن کا میںنے ذکر کیا“یعنی چھوٹی، موٹی، لمبی، پتلی، چوکور، چورس“۔ جب وہ تیار ہوں گی تو پھر آپ حملہ آور ہوں گے۔ میںنے کہا جناب وہ کس قسم کی گولیاںہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ جو گولیاںہیں وہ آیات کی گولیاںہیں جتنی بھی آیات آپ کو یاد ہوں اور سورتوں کے ٹکڑے اور جتنی بھی دعائیں یاد ہیں یہ آپ محفوظ رکھیں اور انہیں عربی میں یاد کر کے رکھیں۔ اس کا آپ کو بڑا فائدہ ہوگا۔ یہ آیتیں اور یہ دعائیں اور یہ درود و وظائف کے جو طے شدہ الفاظ ہیں اور جو اللہ کے پاک نام میں استعمال ہوں ان کو گولیوں کے طور پر اپنے وجود کی سٹین گن میں ہر وقت فٹ رکھیں اور جونہی آپ کو اپنا مدِّ مقابل نظر آئے جس سے آپ کو سخت نفرت ہے تو اسے دیکھتے ہی فائر کر دیں اور جو کچھ آپ کو اپنے مخالف کو زیر کرنے کے لئے یاد ہے پڑھنا شروع کر دیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے رہیںکہ یا اللہ یہ شخص بہت برا لگتا ہے، مجھے اس سے نفرت ہے، میںاس شخص (نفرت، غصہ اور دیگر منفی سوچیں) کو قتل کرنے پر مائل ہوں اور میںاس سے کسی صورت محبت نہیںکر سکتا۔ اب تُو ہی اس کا بندوبست کر۔ جب آپ سوچتے جائیں گےاور اپنی قرآنی سٹین گن سے گولیوں (آیات) کی بوچھاڑ کرتے جائیںگے تو آپ کا منفی خیالات پر غلبہ ہو تا جائے گا۔ ہم مولوی صاحب کی اس بات پر اپنے اپنے دل میںغور کرتے رہے، میں اور ممتاز مفتی اپنے اپنے بستر پر لیٹے تو اس پر غور کرتے رہے لیکن ہم نے اس پر کوئی بات نہیں کی۔ اگے دن صبح سیر کے وقت ممتاز مفتی نے کہا کہ بھئی اس کی بات تو ٹھیک ہے لیکن پتہ نہیں ہم اس میںکامیاب ہو بھی سکیں گے کہ نہیں۔ میںنے کہا ہاں یار ہے تو مشکل بات لیکن تجربہ کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔
میری ریٹائرمنٹ سے کچھ عرصہ قبل ایک سردیوںکی خوشگوار چمکتی دوپہر تھی۔ میںاپنے دفتر کے لان میںچھتری لگا کر مزے سے دھوپ میںبیٹھا تھا کہ میںنے دفتر کے بڑے پھاٹک پر یعنی سڑک کے موڑ پر وہ کار دیکھی جس کے اندر میرا نہایت ہی منحوس اور نہایت قبیح دشمن بیٹھا تھا اور جو “کنی“ کاٹ کر میری طرف ہی آرہا تھا۔ جونہی میںنے اسے دیکھا وہ کار کھڑی کر کے اس میں سےنکل آیا۔ جب وہ اپنی کار کا دروازہ کھول کر باہر نکل رہا تھا تو مجھے اسلام کوٹ (تھر پارکر) کے مولوی صاحب کی بات یاد آ گئی جس میںانہوںنے Defense کا طریقہ بتایا تھا۔ چنانچہ میں اچھل کر اٹھ کھڑا ہو گیا اور میںنے پوزیشن لے لی تو میرا ہاتھ سٹین گن پکڑنے کے انداز میںاُور ایک نیچا ہو گیا اور میں نے فٹا فٹ اور کھٹا کھٹ درود اور آیات کا ورد شروع کر دیا۔ چھوٹی کچھ بڑی جو بھی منہ اور ذہن میںآیا ان آیات کی گولیوںکی بوچھاڑ میںنے جاری رکھی۔ جوںجوں وہ میرے قریب آرہا ہے میںاور الرٹ ہوتا جا رہا ہوں۔ وہ بڑا ہی نالائق، بے وقوف، منحوس اور تکلیف دہ آدمی تھا۔ جب اس نے قریب پہنچ کر السلام علیکم کہا تو میںنے اسے وعلیکم السلام کہا اور بیٹھنے کا کہا تو وہ حیرانی سے میری جانب دیکھ کر کہنے لگا! اشفاق صاحب میںنے دور سے یہ سمجھا کہ آپ کوئی بلب لگا رہے ہیں لیکن یہاںآکر میںدیکھتا ہوںکہ یہاںنہ کوئی بلب ہے اور نہ کوئی تار ہے اور نہ ہی یہاںکوئی ایسا لیمپ ہے تو یہ آپ کیا کر رہے تھے۔۔۔۔ میںنے کہا تشریف رکھئے۔ آدھا میرا غصہ تو دور ہو چکا ہے اور آدھا انشاء اللہ ابھی ہو جائے گا کیونکہ میری سٹین گن میں ابھی چند گولیاںباقی ہیں اور یہ آپ کے بیٹھتے بیٹھتے اسی طرح سے چلتی جائیںگی۔ وہ بیٹھ گیا اور باتیںہونے لگیں۔ (میںنے پھر صحرا میں رہنے والےمولوی صاحب کی بات یاد کی۔ خدا ان کی عمر دراز کرے۔ شاید اس وقت بھی وہ حیات ہوںگے) میں نے آنے والے شخص سے کہا کہ دیکھئے مولوی صاحب نے کیسا اچھا نسخہ بتایا ہے کہ اتنی دیر کے بعد آنے والے صاحب جو مجھے ہمیشہ اذیت اور تکلیف دیا کرتے تھے اب میرے سامنے بیٹھے ہیںاور میری طبیعت پر اتنا بوجھ نہیں پڑ رہا جس قدر پہلے پڑا کرتا تھا چنانچہ اب زندگی میںجب بھی کبھی موقع ملتا ہے اور میں اس حوالے سے خوش قسمت ہوں اور مجھے ان بابوں نے بڑی آسانیاںعطا کی ہیں۔ یہ بابے ہی ہوتے ہیں جن سے انسان پوچھتا رہتا ہے۔ آپ بھی پوچھتے رہا کریں کہ جناب مجھے یہ مسئلہ ہے یا تکلیف ہے۔ اس کا کیا سدٍّباب کیا جائے۔
میں،اسطخدوس کے عرق سے لے کر اپنی سٹین گن چلانے تک جتنی بھی عمر گزری ہے ،اس میںکافی آسانیوں سے گزر گیا ہوں اور میری آرزو ہے کہ آپ بھی میرے ساتھ اس دعا میںشریک ہوںکہ اللہ مجھے اور آپ کو آسانیاںعطا فرمائے اور آسانیاںتقسیم کرنے کا مزید شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ۔
بشکریہ: اردو لائبریری
ٹائپنگ: قیصرانی
پروف ریڈنگ: جویریہ مسعود