ویسے تو یہ دانہ پانی کے اختیار کی بات ہے، لیکن اگر خان کی مدد شامل حال نہ ہوتی تو جیکی ہندوستان ہی رہ جاتا۔ اس بھگدڑ میں لوگ مال و اسباب تو کیا، خویش و اقارب تک کو بھول گئے۔ بھلا ٹھائیں ٹھائیں وغتی بندوقوں میں بیچارے احسان کی طوطی ایسی آواز کہاں پہنچتی جو کسی فوجی کی توجہ سے الجھ کر احسان کی بہتی ہوئی آنکھیں اور ناک دکھا سکتی۔ جب خان نے کیپٹن حق نواز سے ہاتھ باندھ کر کہا کہ یہ اس چھوٹے سے پلے کے لیے جان دے دے گا مگر اسے اپنے ساتھ ضرور لے جائے گا تو کیپٹن صاحب نے اسے جھٹلانے کے لیے طنزیہ مسکرا کر کہا، 'ابھی ٹیسٹ کیے لیتے ہیں' اور پھر انہوں نے نے ٹرک کا انجن چلا کر پورے زور سے ایکسلرٹر دبا دیا۔ ایک ہلڑ مچا اور کندھوں پر چڑھے والدین اور اولادیں ٹپکے کے آموں کی طرح زمین پر آ رہیں اور انہیں اٹھانے والے ٹرک کی طرف ایسے لپکے گویا کسی نے آدمیوں کی باڑھ ماری ہو۔ احسان کا چہرہ ایک دم ہلدی کی طرح ذرد ہو گیا اور وہ بھی اس طرف بھاگا لیکن اس نے جیکی کو بغل سے گرایا نہیں۔ کیپٹن پیار سے ہنسا۔ انجن بند ہو گیا اور سب پھر اپنے اپنے آم چننے لگے۔ احسان کا ے گال اوپر کو ہلے اور ان بھیگے ہو
A blog about literary figure of Pakistan, Ashfaq Ahmed. A writer, playwright, broadcaster, intellectual and spiritualist.